یوں بهی خزاں کا رُوپ سہانا لگا مجهے
ہر پهول فصلِ گُل میں پرانا لگا مجهے
میں کیا کسی پہ سنگ اُٹهانے کی سوچتا
اپنا ہی جسم آئینہ خانہ لگا مجهے
اے دوست! جهوٹ عام تها دُنیا میں اس قدر
تو نے بهی سچ کہا تو افسانہ لگا مجھے
اب اُس کو کهو رہا ہوں بڑے اشتیاق سے
وه جس کو ڈهونڈنے میں زمانہ لگا مجھے
محسن ہجومِ یاس میں مرنے کا شوق بهی
جینے کا اِک حسیں بہانہ لگا مجھے
0 comments:
Post a Comment