زُلف و رُخ کے ساۓ میں زندگی گزاری ہے
دُھوپ بھی ہماری ہے چھاؤں بھی ہماری ہے
غم گُسار چہروں پر اعتبا ر مت کرنا
شہر میں سیاست کے دوست بھی شکاری ہے
موڑ لینے والی ہے ، زندگی کوئی شاید
اب کے پھر ہواؤں میں ایک بیقراری ہے
حال خوں میں ڈوبا ہے کل نہ جانے کیا ہوگا
اب یہ خوفِ مستقبل ذہن ذہن طاری ہے
میرے ہی بزرگوں نے سربلندیاں بخشیں
میرے ہی قبیلے پر مشق سنگ باری ہے
اک عجیب ٹھنڈک ہے اُس کے نرم لہجے میں
لفظ لفظ شبنم ہے بات بات پیاری ہے
کچھ تو پائیں گے اُس کی قربتوں کا خمیازہ
دل تو ہو چکے ٹکڑے اب سروں کی باری ہے
باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے
کہہ دو میر و غالب سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمھاری تھی یہ صدی ہماری ہے
کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں
کل بھی جنگ جاری تھی آج بھی جنگ جاری ہے
گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر
.....شہر میں ہمارے تو جو بھی ہے مداری ہے
0 comments:
Post a Comment