Wednesday 19 February 2014

Ab to khawahish hai k ye zakhm bhi kha kar daikhen

اب تو خواہش ہے کہ یہ زخم بھی کھا کر دیکھیں
لمحہ بھر کے لیے ہی سہی اُسکو بھُلا کر دیکھیں

شہر میں جشن شب قدر کی ساعت آ ؑی
آج ہم بھی تیرے ملنے کی دعا کو دیکھیں

آندھیوں سے جو الجھنے کی کسک رکھتے ہیں
اِک دیا تیز ہوا میں بھی جلا کر دیکھیں

کچھ تو آوارہ ہواوؑں کی تھکن ختم کریں
اپنے قدموں کے نشاں آپ مٹا کر دیکھیں

زندگی اب تجھے دیکھیں بھی تو دم گھٹتا ہے
ہم نے چاھا تھا' کبھی تجھ سے وفا کر کے دیکھیں

جن کے ذروں میں خزاں ہانپ کے سو جاتی ہے
ایسی قبروں پے کویؑ پھول سجا کر دیکھیں

دیکھنا ہو تو محبت کے عزاداروں کو
ناشناسایؑ کی دیوار گِرا کر دیکھیں

یوں بھی دنیا ہمیں مقروض کیے رکھتی ہے
دستِ قاتل ترا احساں بھی اُٹھا کر دیکھیں

رونے والوں کے تو ہمدرد بہت ہیں محسن
ہنستے ہنستے بھی دنیا کو رُلا کر دیکھیں

0 comments:

Post a Comment